Mchoudhary

Add To collaction

ہاری تو پیا میں تیری بقلم ملیحہ چودھری

قسط7

........

وہ ساری چڑیلیں.."بقول ارمان کے "کئی گھنٹے سے اسکو دہلی کی پر کھوار کر رہی تھی.."لیکن مزال ہو ان سب کی شاپنگ ختم ہو رہی ہو...."آج رہ رہ کر اسکو اپنے آپ پر غصّہ آ رہا تھا.."نا تو میں اسکو کچھ بولتا اور نا ہی مجھے دہلی کی سڑکوں پر کھوار ہونا پڑتا.."ہائے رے.."نومی تیری قسمت..."وہ سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں موند بیٹھ گیا... اسکو ابھی آنکھیں مونڈھے کچھ ہی دیر گزری تھی "جب اس کا موبائل رنگ ہوا.."اس نے آنکھیں کھول کر اپنے موبائل کے جانب دیکھا"جہاں ارمان کالنگ لکھا تھا....."ہیلو..!اس نے فون کان سے لگائے بیزاری سے بولا.."سڑکوںکیا بات ہے مجنوں جی..."شاپنگ ختم نہیں ہوئی کیا..."لگتا ہے بیچارے کو آج کنگلا ہی کر دیا ہے.."ارمان اُسکے مزاق بناتے بولا.."اس نے موبائل کو کان سے ہٹا کر گھورا.."جیسے وہ اسکے سامنے کھڑا ہو.."بیٹا مجھے گھورنے سے کام نہیں چلےگا..."ابھی بھی وقت ہے سوچ لے.."جس سے تونے عشق لڑایا ہے نا..."وہ بھی ان بھوتنیوں کے گروپ کی ہے.."کہیں پھر پچھتانا نا پڑ جائے..."ھاھاھاھا.."ارمان نے اپنی بات کو بول کر ایک زور دار کہکا لگایا تھا....."ارمان ن ن...' وہ دانت کچکچاتے بولا.."جیسے وہ ابھی اسکو کچا چبا جائے گا...."چل بیٹا تُجھے سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کر سکتا ہوں.."خیر میں نے تجھے اس لیے فون کیا تھا.."کہ ہم سب یعنی میں،ارثمیل،ہادی اور جہان.."ہم سب فوڈ کارنر آئے ہوئے ہے۔۔۔لیکن لگتا ہے "مجنوں بھائی کو ابھی وقت نہیں ہے.."اس لیے رہنے دو۔۔۔"خوب شاپنگ کرواؤں اور ہاں ایک دو شرٹ میری بھی لے آنا.."سچ میں دعائیں نکلے گی دل سے..."اس نے اپنی بات بول کر جلدی سے کال کاٹ دی تھی.."اور نعمان کا تو پہلے سے ہی غصّے سے بُرا حال تھا.رہی سہی کسر ارمان نے پوری کر دی ."لیکن افسوس وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا.."ورنہ دل تو اسکا ان بھوتنیوں کو یہی چھوڑ کر جانے کو کر رہا تھا.."وہ غصّے کو اپنے اندر اُتارتا بیٹھ گیا.."کیا کرتا اسکے علاوہ وہ کر بھی تو کچھ نہیں سکتا تھا...."
***********
پانچ گھنٹے خوار ہونے کے بعد وہ سب ہمدانی ویلہ واپس آئے تھے.."اللّٰہ کتنی گرمی ہے.."اوپر سے اس نعمان کے بچے نے یہ بھی نہیں سوچا.."بہنوں کو آئیس کریم ہی کھلا دوں.."پر نہیں پھر غریب کنجوس مکھّی چوس کون بولے گا.."آخر کو اپنے نام کی لاج بھی تو رکھنی تھی اس کو..."انوشے لاؤنج میں صوفے پر بیٹھتی اپنے پاؤں کو سینڈل سے آزاد کرتی.."نعمان میاں کو نئے نئے الفاظوں سے نوازتی بولی.."اُسکی بات کو سن کر تو نعمان کی آنکھیں ہی باہر کو نکل آئی تھی.."اُسکا تو منہ ہی کھل گیا تھا..."اللّٰہ......"ت تمہیں میں ابھی بھی یہ سب لگتا ہوں.."کچھ تو خدا کا خوف کرو..."مطلب میں نے تیس ہزار سات سو روپے تم پر خرچ کر دیے اور ابھی بھی میں تمہیں کنجوس لگتا ہوں..."اور پھر الگ سے دہلی کے مشہور ہوٹل میں تم لوگوں کو ڈنر کروایا.."پتہ بھی ہے وہاں کا خرچ کتنا ہے..."ایک مڈل فیملی کا پوری مہینے کا خرچ ہوتا ہے اتنا.."اور تمہیں ابھی بھی میں کنجوس ہی لگتا ہوں..."ہاں تو کون سا تم نے کئی لاکھ خرچ کر دیے.."بس تیس ہزار ہی تو خرچ کیے ہے۔۔"اب کی بار جرتاشہ نے جواب دیا تھا..."بس تیس یعنی کوئی اہمیت نہیں ہے تیس ہزار کی تم لوگوں کی نظروں میں..."لوگوں کو پورا پورا دن سڑکوں پر خوار ہونا پڑتا ہے "اور پھر بیچاروں کے ہاتھ میں پانچ سو یا ہزار روپے آتے ہے.."اور تم لوگوں کی نظروں تیس ہزار کی کوئی اہمیت نہیں..."جب کروگی نا."تب پتہ چلے گا..." اچھا اچھا اتنے لیکچر مت دو.."بہت پیاس لگی ہے ایک گلاس پانی لا کر دو .."نوکر نہیں ہوں تمہارا..."خود لے لو آٹھ کر.."صحیح کہتی ہے خالہ جان بہت کام چور ہو.."جیری بھائی کی مجھے ابھی سے ہی ٹینشن ہو رہی ہے.."پتہ نہیں کیا ہوگا انکا......"وہ یہ بولتا وہاں سے چلا گیا.."کیونکہ اب اسکو انوشے کے تیور اچھے نہیں لگ رہے تھے....."نعمان کے بچّے..."چھوڑوں گی نہیں تم کو دیکھنا....وہ بھی اب اپنے روم میں چلی گئی...."شفق اور نادیہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا."اور پھر وہ دونوں بھی ہنستی ہوئی روم میں چلی گئی تھی...........جبکہ مانیہ وہاں سے پہلے ہی جا چکی تھی.."کیونکہ اُسکا جب سے نعمان سے رشتہ طے ہوا تھا.."ایک جھجھک آڑے آ رہی تھی..اور نعمان کی لو دیتی آنکھیں اسکو بہت پریشان کر رہی تھی .."اس لیے وہ آتے ہی اپنے روم میں چلی گئی..... اور جرتاشہ ٹی وی کھول کر وہی لاؤنج میں بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
************************
آج الوداع کا روزہ تھا.."اور دن سے آج گرمی بہت زیادہ تھی..."وہ ابھی ابھی شاور لے کر نکلی تھی.."جب اسکا دروازہ دھڑام سے کھلا اور ارمان اندر آیا..."ایک پل کو اسکو لگا پتہ نہیں کیا ہو گیا."لیکن جب اسکو سمجھ آیا تو غصّے سے اُس کی طرف دیکھا.."تمیز نہیں ہے تم نےکبھی چین سے بھی بیٹھ جایا کرو....."اور کسی کے کمرے میں ایسے آتے ہے....."دیکھو" ہارٹ وچّ " پہلی بات تمیز ہم میں سیرے سے ہی نہیں ہے.."اور دوسری بات ہم کسی اور کے کمرے میں نہیں آئے بلکہ.."اپنی کزن کے روم میں آئے ہے..."اور اب اگر تمہیں فرصت ہی گئی ہو تو اپنا دیدار ہم غریبوں کو کرا دو.."بیچارے ارثمیل بھائی،ہادی بھائی اور جہان بھائی تمہارے انتظار میں ہلکان ہو رہے ہے.."اس لیے جلدی سے چلو کہی انکو تمہارا انتظار کرتے کرتے ہارٹ اٹیک ہی نا آ جائے..."ارمان نے اچھا خاصا لیکچر دے کر اس کو ارثمیل ،ہادی اور جہان کے آنے کی اطلاع دی تھی.."اچھا.."تم چلو میں آتی ہوں.."انوشے نے اسکو جانے کا بولا اور خود تیار ہونے لگی.."ٹھیک ہے" لیکن جلدی آنا.."وہ بھی وہاں سے چلا گیا.......وہ بھی اپنی تیاری میں لگ گئی...
************************
ہائے گائز ..کیا ہو رہا ہے..."انوشے ٹریس پر آتے اُن لوگوں کوں دیکھ کر بولی تھی.."اس بات سے بے خبر یہاں گرین ائیر گھوسٹ بھی ہے...وہ اُن سب سے حال احوال دریافت کی تھی "ارے جہان تم کب آئے ..؟ وہ جہان کو دیکھ کر وہی آ کر اُسکے پاس بیٹھ گئی تھی.."جہان اُسکی پھپوں کا لڑکا تھا.."عادت کا بہت اچھا.."ہینڈسم بھی تھا.."جرّار نے جب اسکی آواز سنی تو اس نے پلٹ کر دیکھا.."ریڈ پٹیالہ شلوار قمیض شانوں پر دوپٹہ ڈالے.."بالوں کی ڈھیلی سے چوٹیاں کئے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی..."جرّار شفق اور ارم سے باتیں کر رہا تھا..."جب وہ ٹریس پر وہ آئی تھی.."لیکن اب وہ ہر شے کو فراموش کیے بس اسکو دیکھ رہا تھا.."دیکھنے کا انداز ایسا تھا"کوئی یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ انوشے کو دیکھ رہا ہے..."جیری میری بات تو سنے."شفق نے جرّار کو اپنی طرف متوجہ کیا.." انوشے نے جیری کے نام پر ایک نظر اسکو دیکھا.."گرے شرٹ پر بلیک جیکٹ پہنے."بالوں کو ترتیب سے سیٹ کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا....."انوشے اسکو سراہیے بغیر نا رہی.."لیکن صرف دل میں."ہنننننننن .....ویسے ہے توں بہت خوبصورت.."لیکن ایسی خوبصورتی کا کیا.."جب عادت اچھی نا ہو..."ہر بار نئی نئی لڑکیوں سے عشق فرماتا ہے..."صحیح کہا تھا ارمان نے کہ یہ شخص کسی کو بھی نہیں چھوڑتا.."یہاں تک کہ اپنے گھر کی لڑکیوں کو بھی نہیں چھوڑا اس نے.."دیکھو تو کیسے چپکی بیٹھی ہے یہ چشمش.."بلکل بھی خیال نہیں ہے........."مجھے کیا..؟ کسی سے بھی عشق لڑاے...میں تو بہت جلد ڈائیورس لے لونگی.."پھر لڑاتے رہنا سب سے عشق..."کہاں کھوئی ہو.."جہان نے اُسکے چہرے کے آگے چٹکی بجا کر اسکو اپنی طرف متوجہ کیا تھا.."نہیں نہیں بس ایسے ہی کچھ سوچ رہی تھی.."کیا سوچ رہی تھی.."ہمیں بھی بتا دو.."جہان نے پوچھا..."ارے کچھ نہیں تم بتاؤ کب تک کے لیے آئے ہو.."یا پھر اس بار بھی اپنی جھلک دکھا کر چلے جاؤگے..."اس نے بات بدلتے کہا..."نا نا اس بار میں نومی کی شادی کے بعد ہی جاؤں گا....."یہ تو بہت اچھی بات ہے..."پھر ٹھیک ہے.."خوب مستی کرے گی.."سب مل کر....."ہاں "ویسے تم نے بتایا نہیں کیا سوچ رہی تھی..."وہ پھر سے وہی ٹاپک لے آیا تھا.."کیا بتاؤں.."کچھ لوگ ایسے ہوتے ہے اگر لڑکیاں کسی لڑکے سے دوستی کر لے تو انکے لیے یہ سب ناجائز ہو جاتا ہے.."اور خود دیکھتے نہیں کہ ہم کیا کیا گل کھلاتے ہے.."وہ بتا تو جہان کو رہی تھی.."لیکن دیکھ جرّار کو رہی تھی..."ہاں یار یہ تم نے صحیح کہا..."تمہاری بات سو فیصد درست ہے.."لیکن ہم کر کیا سکتے ہے.."سب کی اپنی عادت ہے..."اچھا تم مجھ سے دوستی کرو گے.."اس نے کچھ سوچتے جہان کی طرف دوستی کی پیشکش دی..."ہاں ہاں کیوں نہیں.."بھلا کون ظالم ہو گا جو اتنی خوبصورت لڑکی کی دوستی کو رد کرے گا.."جہان مسکراتے بولا تھا..."اس کی بات پر انوشے بھی مسکرائے بغیر نا رہ سکی...." اوہ تھینک یو.."موسٹ ویلکم.."وہ بھی ایک ادا سے سر کو خم لیے بولا..اور پھر دونوں ہی مسکرا دیے.."بظاھر تو جرّار سفق اور ارم سے بات کر رہا تھا لیکن اسکا سارا دھیان انوشے پر تھا..."اُن دونوں کو یوں ہنستے اور دیکھا تو اسکو بہت غصہ آیا.."اسکو غصہ اس لیے نہیں آیا تھا کہ انوشے جہان سے بات کر رہی ہے۔۔"بلکہ غصہ اس لیے آیا تھا.."کیونکہ انوشے اُسکی اتنی بے باک بات پر ہنس رہی تھی.."لیکن وہ بولا کچھ نہیں تھا.."اچھا جہان تمہیں سویٹ میں کیا اچھا لگتا ہے.."انوشے نے بہت پیار سے جہان سے پوچھا.."کسٹرڈ"بہت پسند ہے.."جہان نے بتایا.."اوہ سو سویٹ .."تمہاری پسند اور میری پسند بلکل ایک جیسی ہے..."چلو آج میں اپنے ہاتھوں سے خود تمہارے لیے کسٹرڈ بلکہ تمہاری پسند کی ہر چیز بناونگی.."وہ بولی...."ٹھیک ہے.."بھئی ہمارے تو نصیب ہی کھل گئے۔۔۔۔ "وہ مسکراتے بولا...."وہاں بیٹھے انوشے کی پلٹن نے حیرت سے انوشے کے طرف دیکھا.."انوشے یہ تم ہی ہو نا. ."ارمان کو تو حیرت ہو رہی تھی..."کیونکہ کبھی انوشے خلیل کسی پر بھی اتنی مہربان نہیں ہوئی جتنی آج جہان سکندر پر ہو رہی تھی.."کیا مطلب انوشے نے اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھ کر پوچھا تھا..."مطلب وطلب چھوڑو بعد میں بتاؤنگا.."ابھی مجھے کچھ کام ہے.."ماما نے بلایا ہے.."آ کر بتاتا ہوں وہ یہ بول کر چلا گیا تھا.."جرّرا اُسکی اتنی دیر سے بے فضول کی باتوں کو برداشت کر رہا تھا.."وہ بھی غصے سے آٹھ کر چلا گیا تھا.."اور یہ ہی تو انوشے چاہتی تھی..."یعنی وہ اپنے پلان میں کامیاب ہو گئی تھی.."جرّار کے جاتے ہی وہ بھی معازرت کرتی وہاں سے اٹھ گئی....اب اسکا ارادہ کچن میں جانے کا تھا.."کیونکہ شائشتہ بیگم نے اسکو بہت سختی سے تاکید کی تھی.."کچن میں روز جانے کی..اب وہ جیسی بھی تھی.."لیکن اپنی ماما کے حکم کو نہیں ٹال سکتی تھی....اس لیے اب وہ کچن میں موجود مانیہ وغیرہ کے ساتھ مل کر کھانا بنانے میں ہاتھ بٹا رہی تھی...............
***********************
دن اپنی رفتار سے گزر رہے تھے..' وہ کمرے میں لیٹی چھت کو گھور رہی تھی..."مجھے کیوں اتنی جیلسی فیل ہوتی ہے..جب بھی میں گرین ائیر گھوسٹ کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھتی ہوں....."میں کیوں اس کے ساتھ کسی بھی لڑکی کو برداشت نہیں کر پا رہی..."کیا مجھے اُسکی عادت ہو گئی..."وہ خود سے سوال جواب کر رہی تھی..."لاشعوری طور پر وہ اسکو سوچ نے لگی تھی۔۔۔اسکو وہ دن یاد آیا.."رات کے ایک ہو رہا تھا..."ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی.."اس پہر ہمدانی ویلا کے سب ہی نفوس سو چکے تھے...."وہ بار بار کروٹیں بدل رہی تھی.."بےچینی اُسکے پورے وجود سے دکھ رہی تھی.."تھک ہار کر وہ اٹھ بیٹھی...."یا اللہ کیا مصیبت ہے۔۔؟وہ پیروں میں چپّل اُڑیستی اپنے روم سے باہر نکلی..."اُسکا ارادہ کافی بنا کر پینے کا تھا..."وہ کچن میں فریج سے دودھ نکال لائی "اب وہ برنر کے سامنے کھڑی دودھ گرم ہونے کا انتظار کر رہی تھی......."کیا مجھے بھی ایک کپ کافی مل سکتی ہے...."اسکو اپنے پیچھے سے جرّار کی آواز سنائی دی..."وہ جیسے ہی پلٹی تھی اُسکی جیری سے تکّر ہونے سے بمشکل ہے بچ پائی.."کیونکہ جرّار اُسکے بہت نزدیک بلکل پیچھے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔وہ اسکو ہی دیکھ رہا تھا..."ا آپ ..........؟ انوشے نے اسکو دیکھتے فقط اتنا ہی بولا تھا.."اور جرّار تو بیہوش ہی ہونے کو تھا.."کیونکہ آج پہلی بار انوشے نے اُسکو آپ سے بلایا تھا......"محترمہ طبیعت ٹھیک تو ہے..؟ کہیں بخار تو دماغ پر نہیں چڑھ گیا..."وہ حیرت کے جھٹکوں سے باہر آتے اُسکے ماتھے کو چھوتے ہوئے بولا........."آنکھوں میں شرارت ہونٹوں پر مسکراہٹ..."چاندنی رات کچن کی کھڑکی سے آتی تھندی دل موہ لینے والی ہوائیں........"انوشے نے اپنی گھنی پلکوں کی باڑ اٹھا کر اُسکی طرف دیکھا جو اُسکا مجازی خدا تھا.."اور وہ بھی بچپن کا بلاشبہ وہ حسن کا ایک بنا بنایا شاہکار تھا....."ایک پل کو اسکو اپنی قسمت پر ناز ہوا تھا.."کیونکہ اتنا خوبصورت مرد ہر کسی کی قسمت میں تھوڑی ہوتا ہے....."اور بس وہ اسکو دیکھتی ہی رہی.."وہ بھی ایک ٹرانس سی کی کیفیت میں اسکو دیکھ رہا تھا.."دونوں کی نظریں ٹکرائی اور انوشے خلیل کی دھڑکنیں منتشر کر گئی..."کمال ہے محترمہ آج اپنی نظروں سے پگھلانے کا اردہ ہے کیا ....."جرّار نے اُسکے نظریں خود پر محسوس کرتے کہا تھا ..."لیکن جب بھی اُسکے کوئی جواب نہیں ملا ...."کیا ہوا...؟ طبیعت تو ٹھیک ہے...؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو...؟ جرّار نے بمشکل اس پر سے نظر ہٹائی اور اُسکے سامنے اپنے ہاتھوں کو لہراتے پوچھا اب کی بار اسکو سچ میں ہی تشویش ہوئی تھی.."کیونکہ پہلی بار انوشے خلیل اسکو اتنی غور سے بلکل خاموشی سے دیکھ رہی تھی.."اُسکی یہ تشویش تو لاحق تھی...وہ اُسکی آواز سے ٹرانس کی کیفیت سے باہر آئی..."ایک پل لگا اسکو اپنی انا کا کھول پہننے میں..."کچھ نہیں ہوا....؟ اور تم اپنے کام سے کام رکھو.."کوئی ضرورت نہیں ہے.."مجھ سے سوال جواب کرنے کی..اور ہاں خود ہی بنا لے۔۔۔میں آپ کی کوئی نوکر نہیں ہوں..."جو آپکو کافی بنا کر دوں...."وہ بدتمیزی سے جواب دیتی وہاں سے جانے لگی...."پھر سے وہی انوشے خلیل بن گئی تھی......."جب اُسے اپنا ہاتھ جرّار کے آہنی گرفت میں محسوس ہوا..."اس نے پلٹ کر جرّار کی طرف دیکھا.." ایک نظر اپنے ہاتھ کی طرف اور دوسری نظر جرّار کو دیکھا...."جرّار نے اسکو ایک جھٹکا دیا تھا..."وہ اُسکے سینے سے آ لگی.."جرّار نے اپنی گرفت اور مضبوط کر لی تھی اُسکے ہاتھ پر ......."پھر وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا..."کون کافر تمہیں نوکر بول رہا ہے..."؟میں نے تو نوکر بولا ہی نہیں...."لیکن تم نے یہ بات بلکل سو فیصد درست کی ہے کہ تم نوکر نہیں ہو میری.."بیوی تو ہو نا..."اور ایک بیوی کا فرض ہوتا ہے اپنے شوہر کا ہر کام کرنا.."نا کہ اسکو الٹے جواب دینا..."انوشے اپنے ہاتھ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی.."لیکن مقابل کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اسکو اپنی کلائی میں۔ جرّار کی انگلی پیوست ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔وہ اُسکے بات کو نظرانداز کرتی بولی۔۔چھوڑیئے مجھے..."انوشے نے جب دیکھا کہ سامنے کھڑے اس شخص کی گرفت سے نکلنا اُسکے بس کی بات نہیں یہ آخر میں اُس نے تھک ہار کر کہا تھا........"نہیں آج پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو"پھر چھوڑ دوں گا..."جرّار ضد لگاتے بولا......"پوچھو..."اس نے بیزاری سے اُسکے چہرے کو دیکھتے اجازت دے دی..."آخر تم مجھ سے چاہتی کیا ہو...؟ یہ بدتمیزی صرف میرے ساتھ ہی کیوں کرتی ہو..؟ وہ بے بسی سے اسکو دیکھتے پوچھ رہا تھا........."آج اُسکی ہمّت جواب دے گئی تھی..."اس لڑکی کے بدتمیزی سہتے سہتے........اتنے دنوں سے زہن اور دل میں مچلنے والا سوال آج اس نے لفظوں میں ادا کر دیا تھا..."انوشے نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا...."اور پھر بولی......."تمہیں پتہ نہیں میں کیا چاہتی ہوں...."ٹھیک ہے میں بتاتی ہوں کہ میں کیا چاہتی ہوں......."م م وہ بولنا چاہتی تھی لیکن اُسکی زبان اُسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی...."دل خوف سے دھڑکنا بھول گیا تھا......"لیکن پھر بھی اُسکے انا آڑے آ رہی تھی............."کیا.....؟جرّار نے بےچینی سے پہلو بدلا اور اُسکی آنکھوں میں جھانکا..."م میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے ڈائیورس دے دو............"اس نے اپنے دل کو سنبھالنے کی ناکام سے کوشش کرتے بول ہی دیا تھا.."لیکن اسکا دل پھٹنے کو ہو رہا تھا.........."کیونکہ میں آپ سے بہت نفرت کرتی ہوں..."وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی...."جیسے ڈر ہو کہ یہ شخص سچ میں ہی اسکو اپنے نام سے آزاد نا کر دے...."جرّار کی گرفت ایک دم ڈھیلی پڑ گئی......"ایک دم وہ اس سے کئی قدم کے فاصلوں پر کھڑا ہو گیا......"اور پھر بولا.."ٹھیک ہے.....! تمہیں ہماری رخصتی سے پہلے ڈائیورس کے پیپرز مل جائے گے..."وہ یہ کہتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا......"انوشے وہی بیٹھتی چلی گئی....."اسکو پکّا یقین تھا۔۔۔کہ وہ لاکھ صحیح جرّار ہمدانی سے ڈائیورس مانگ لے لیکن وہ اسکو کبھی نہیں دیگا.."اور یہ چیز اسکو بری لگتی تھی..."وہ تو بہت خوش تھی طلاق سے اس نے مانیہ سے بھی کہا تھا کہ وہ جرّار سے طلاق لے کر رہے گی...."لیکن اب جب وہ دینے کے لئے تیار تھا تو اسکو خوشی کیوں نہیں ہوئی...."کیوں وہ اس غم میں دھیتی چلی گئی.....؟ وہ اٹھی اور جلدی سے اپنے روم میں چلی آئی......."اور بیڈ پر اوندھے منہ گر کر زارو قطار رونے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔کیوں......؟انوشے........؟ اُسکے اندر سے آواز آئی تھی..."اس نے سر اٹھا کر دیکھا..."بلکل اُسکا ہی عقس اسکو نظر آیا....."کیا ہوا....؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے..."کہ وہ شخص تمہاری خواہش پوری کر رہا ہے......"تمہیں تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ جرّار ہمدانی سے تمہیں چھٹکارا حاصل ہو رہا ہے...."پھر یہ رونا یہ ماتم یہ بےبسی کس لیے.....؟ وہ ایک بار پھر رونے لگی......"وہ تو بہت برا ہے..."اُسکا طرح طرح کی لڑکیوں سے افئیر ہے...." تو پھر یہ درد کیسا جو اب تمہارے دل میں اس سے الگ ہونے میں ہو رہا ہے....."اس کے پاس ان سوالوں کے کوئی جواب نہیں تھا.۔۔"وہ تو بس روئے ہی جا رہی تھی.............."تمہیں پتہ ہے تم کیوں رو رہی ہو..."کیونکہ تم جانے انجانے میں ہی صحیح لیکن تم جرّار ہمدانی سے محبّت کرتی ہو اور وہ بھی بہت عرصے سے....."ہاں انوشے خلیل وہ جو تمہارا شوہر ہے۔۔۔"جس کے نکاح میں تم برسوں سے ہو....."جو تم پر ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے...."تم اس سے محبّت کرتی ہو...."انوشے تو اس انکشاف پر جتنا حیران تھی اتنا ہی کم تھا.............."اس انکشاف پر اسکے پورے وجود میں سکوں سا اُتر گیا تھا.."دل کو تسکین مل گئی تھی.."ساری بےبسی سارے درد ختم ہو گئے تھے...."وہ پرسکون ہو گئی تھی...."وہ اٹھی اور آئینہ کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی..."اپنے اُجڑے ہے ترتیب حلیہ کو دیکھا...."جو جرّار کی جدائی پر آنسوں بہ رہا تھا...."لیکن دل کو ایک سکون ضرور ہو گیا تھا......"کہ وہ جرّار ہمدانی سے محبّت کرنے لگی ہے..........پر اُسکا دل ساتھ ہی ساتھ ہول بھی رہا تھا..."کہیں سچ میں ہی وہ ڈائیورس پیپرز اسکو لا کر تھما نا دے۔۔۔اور بولے لو انوشے خلیل اس پر دستخط کر دو آج یہ جرّار عارف ہمدانی تمہیں اپنے نام اپنے وجود اپنی ہر شے سے آزاد کرتا ہے....."یہ ہی سوچ کر اس نے جھرجھری سی لی..................
پھر اس نے آئینے میں اپنا اور جرّار کا عقس دیکھتے ایک شاعر پڑھا..

اس شرط پر کھیلوں گی پیار کی بازی 
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاری تو پیا میں تیری
ہر لحاظ خیال تیرا رکھوں گی صرف اتنا
بیٹھ جاؤں تو بھی تیری آٹھ جاؤں تو بھی تیری
کچھ کر لوں گی حال اپنا ایسا ہمسفر
آنکھ لگے تو بھی تیری آنکھ کھلے تو بھی تیری
تیری ہر آہٹ پر پا لوں گی تعبیر ایسی
ہنس جاؤں تو بھی تیری روٹھ جاؤں تو بھی تیری
میں ساتھ دوں تیرا کچھ ایسا گرین ائیر گھوسٹ
زندہ رہوں تو بھی تیری مر جاؤں تو بھی تیری
پر ہر حال میں ہر وقت میں"ہاری تو پیا میں تیری.
بقلم
ملیحہ(مجیبہ) چودھری

اور پھر اس نے شرم کی وجہ سے اپنی پلکیں جھکا لی.."جیسے وہ اپنی محبّت کا اقرار جرّار ہمدانی کے سامنے کر رہی ہو...........اگر جرّار ہوتا تو اُسکے اس روپ پر وہ تو نہال ہی ہو جاتا..کیونکہ یہ روپ تو انوشے کے لیے بھی حیرت کا باعث بن گیا تھا.."کہاں تو وہ اس شخص سے بے نام نفرت کرتی آ رہی تھی.."اور کہاں پل میں وہ اس سے محبّت بھی کرنے لگی تھی......"ہے شک وہ پاک ذات سب کے دلوں کے حال جانتا ہے...."اور پھر نکاح کے تین بول میں اللہ نے بہت طاقت دی.."یہ تو خود ہی اپنا آپ منوا لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
********************** 



آج چاند رات تھی.."اگلے دن عید..."ہمدانی ویلا میں ہر سال کی طرح چہل پہل تھی..."ہر طرف شور شراب..."کل کے دن یعنی عید کی شام میں مانیہ کا نکاح تھا...."ہمدانی ویلا کو دلہن کے طرح سجایا گیا تھا......"ہر طرف پھولوں کی خوشبوں کی مہک تھی...."آج مانیہ کا مہندی کا فنکشن تھا.."اور پھر چاند رات ہونے کی وجہ سے سب ہی مہندی لگوا رہے تھے.......مہندی کے فنکشن کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا.."اسٹیج پر لڑکیاں بیٹھی ڈھولک بجا رہی تھی...."اور اسٹیج کے چاروں طرف لڑکوں کے لیے چیئر بچھا رکھی تھی..."اسٹیج پر مانیہ اور نعمان کے لیے الگ سے بہت ہی خوبصورت چیئر رکھی تھی.... شفق یار جیری بھائی نظر نہیں آ رہے کہاں پر ہے وہ.."بھئی بلاؤ انکو بھی ایک دو دن ہمارے ساتھ بیچلر لائف انجوئے کر لے گے.."ورنہ پھر کہاں انکے پاس ٹائم ہو گا...."ارشمیل نے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا.."جی بھائی میں جاتی ہوں......"وہ یہ بولتی اپنا شرارہ سنبھالتی اسٹیج سے اٹھ گئی اور جرّار کے روم کی طرف چلی آئی......
*****************************
ارے میری چلتی فرتی بلا کہاں جا رہی ہو ۔۔۔۔۔"ارم اپنے گھر سے آ رہی تھی.."اس نے جینز پر لونگ کرتا پہنا تھا بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا....."وہ پیاری لگ رہی تھی..."ہادی نے جب اسکو دیکھا تو وہ اسکی طرف لپکا...."اور اسکو چھیڑتے بولا....."ارم وہیں پر رک گئی..."اور اسکو گھوری سے نوازتے بولی..."آپ سے مطلب...."میں کہیں پر بھی جاؤں۔۔۔۔۔بھئی مجھ سے مطلب نہیں ہوگا تو کس سے ہوگا......"آخر کو فیوچر ہسبنڈ ہوں میں تمہارا......."وہ اپنی دانتوں کی نمائش کرتے بولا..."خوش فہمی تو دیکھو جناب کی " فیوچر ہسبنڈ" بننے چلے ہے شکل دیکھی ہے اپنی ایسے لگتے ہے جیسے انسانوں کی دنیا میں لنگور آ بسا ہو ... ھاھاھاھا۔۔وہ اپنی بات بول کر ہنسی۔۔۔"دیکھ لو یہ لنگور ہی ایک دن تمہارا شوہر بنے گا.."انشاءاللہ۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔۔۔اسکو بلکل بھی برا نہیں لگا تھا ارم کا اسکو لنگور بولنا....."ہاں ہاں کیوں نہیں دیکھ لیں گے..."ٹھیک ہے ۔۔۔شرط لگا تے ہے...."اگر تم ہاری تو صرف میری اور اگر میں ہارا تو کبھی نہیں آؤں گا تمہاری زندگی میں..."ہادی نے بول کر اسکی آنکھوں میں جھانکا..."منظور ہے...اس نے ارم کے آگے شرط کے لیے ہتھیلی پھیلائی.. ارم بھی منظور ہے بولتی اپنا ہاتھ رکھ گئی تھی...یہ جانے بغیر کہ ہادی صاحب آل ریڈی شرط جیت گئے ہے..."کیونکہ ہادی نے اپنا رشتہ پہلے ہی طے کروا لیا تھا آغا جان سے بول کر اور آغا جان نے امتیاز صاحب سے بات کر لی تھی......"اور پھر نکاح کی تاریخ بھی اس دن کی ہی رکھی گئی تھی جس دن مانیہ کی رخصتی تھی......"ویسے آپکی اطلاع کے لیے ہادی جی. اُرفف "مسٹر ٹھرکی" میرا رشتہ طے ہو گیا ہے.."اور نکاح کی تاریخ بھی رکھ دی گئی۔۔۔"بس لڑکوں والوں کی ایک شرط ہے کہ وہ کوئی بھی رسم نہیں کریں گے ۔۔صرف نکاح۔۔اُسکے باد رخصتی.."وہ اسکو دیکھتے بتا رہی تھی.."اچھا......"ویسے تم نے اس لڑکے کی کوئی فوٹو دیکھی..."وہ جانچنے نظروں سے دکھ کر پوچھ رہا تھا..."نہیں۔۔"ارم نے نا میں گردن ہلا کر اسکو منا کیا تھا.....کوئی بات نہیں بھلے ہی رشتہ ہو گیا ہو..."لیکن نکاح تمہارا صرف ہادی سے ہو گا۔۔۔وہ اُسکے آنکھوں میں جھانکتا ایک آنکھ دبا کر وہاں سے چلا گیا تھا..."پیچھے وہ منہ کھولے اسکو جاتا دیکھ رہی تھی...."ہنننننننن ٹھرکی نا ہو تو۔۔۔وہ مسکراتی وہاں سے چلی گئی۔۔۔جہاں پر مانیہ کو بٹھایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
************************
وہ بیڈ پر لیٹا بس ایک بات ہی یاد کیے جا رہا تھا...جرّار عارف ہمدانی ولد عارف ہمدانی آپکو انوشے خلیل ولد خلیل رحمان سے نکاح قبول ہے..."جب وہ اس عمر میں تھا تب نکاح کا مطلب بھی نہیں جانتا تھا.."اس نے بس اس لیے قبول کیا کہ یہ ہری آنکھوں والی شہزادی ہمیشہ کے لیے اُسکی ہو جائے گی.."وہ کتنا خوش تھا بہت زیادہ........"وہ تو بچپن میں ہی اسکو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا پھر اب کیسے چھوڑ سکتا تھا.."لیکن اسکی مجبوری تھی..."اسکو نا چاہتے ہوئے بھی چھوڑ نا پڑ رہا تھا....."کیونکہ وہ لڑکی اس سے نفرت کرتی تھی...."وہ کیسے اُسکو نفرت کی آگ میں جل تا ہوا دیکھ سکتا تھا..."اُسکی خوشی کے لیے اس نے اپنی خوشی اپنے خواب اپنی زندگی داو پر لگانے کو تیار تھا..."کیونکہ وہ اس سے محبّت نہیں بلکہ عشق کرتا تھا..."اور عشق میں اسے صرف اُسکی خوشیاں چاہیے تھی..."اسکو نا تو کبھی اُسکی قربت کی ضرورت تھی.."نا اُسنے کبھی اسکو پانے کی خواہش کی تھی.."وہ تو صرف اتنا چاہتا تھا.."کہ یہ لڑکی ہمیشہ خوش رہے........."بس اُسکی ایک ہی خواہش تھی۔۔بس کبھی اس لڑکی کا نام اس سے جدا نا ہو...."اور آج یہ خواہش بھی دم توڑ گئی تھی..."کیونکہ اُسکے عشق کی اُسکے جانِ جہاں کی جو خواہش تھی.."پھر وہ اپنی خواہش کے لیے کیسے اسکی خواہش رد کر سکتا تھا..... ٹک ٹک ٹک........."دروازہ نوک ہوا۔۔۔۔اور وہ اپنے خیالوں سے باہر آیا...."اس نے بیڈ پر لیٹے ہوئے نے ہے اندر سے پوچھا..."کون......؟ باہر سے شفق کی آواز آئی بھائی میں ہوں شفق...."آیا گڑیاں۔۔اس نے بیڈ سے اٹھ کر دروازہ کھولا...."بھائی آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔۔۔باہر سب مہمان آپ کا انتظار کر رہے ہیں..."وہ اندر آتی بولی..."اچھا گڑیاں تیار ہی ہونے لگا تھا...."بھائی ویسے آپ پہن کیا رہے ہے۔۔۔"شفق نے پوچھا..."ابھی تک سیلیکٹ ہی نہیں کیے...."اوہ ہ ہ۔۔۔"چلے میں بتاتی ہوں آج آپ کیا پہنے گے..."شفق جرّار کی وارڈ روب کی طرف بڑھتی بولی.."پھر اس نے مہندی رنگ کا پٹھانی شلوار قمیض نکلا اور جرّار کو تھماتی بولی..."بھائی آپ یہ پہنے.."بہت پیارا لگے گا.."دیکھنا انوشے آپی کا دل لوٹ لے گے آپ اس کو پہن کر وہ شرارت سے جیری کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔اُسکی بات پر وہ بمشکل ہی ہنس پایا تھا...."ورنہ دل تو اسکا ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا...."اوکے گڑیاں آپ چلو.."میں بس پانچ میں آیا۔۔۔"وہ یہ بولتا.."واشروم میں گھس گیا.."اور شفق بھی گردن ہاں میں ہلاتی وہاں سے چلے گئی۔۔۔۔۔۔۔
*************************
وسیع آسمان پر ٹمٹماتے ستارے رات کو سیاہی میں چمک بھر رہے تھے۔۔چاند کے چہرے پر لہراتے آکاش کے بادل کبھی اسے ڈھانپ دیتے تو کبھی اُسکے چہرے سے لہراتی زلفوں کی طرح ہٹتے اُسکے گرد پھیلی چاندنی کو کھلکھیلانے پر مجبور کر رہے تھے....."ہوائیں اپنی دھن میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی.."وہ ریڈ کارپیٹ پر چلتی ہوئی آ رہی تھی...."مہندی رنگ کا ہلکی ایمبرائیڈری والا گاؤن پہنے بالوں کو سادھے سے جوڑے میں مقید کیے جس میں سے کچھ آوارہ لٹے باہر آ رہی تھی"اور وہ انکو بار بار اپنی مخروطی انگلیوں سے انکو کانوں کے پیچھے اُڑیستی ، ہونٹوں پر ہلکے نیچرل پنک رنگ کی لپ اسٹک لگائے "اپنی گجراری آنکھوں میں کاجل کا پہرا دیے وہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی..."ایک ہاتھ میں اس نے مہندی کی تھال تھاما ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے گاؤن کو سنبھال رہی تھی...."وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتی اسٹیج تک آئی ۔۔"جیسے کسی بہت قیمتی شے کو ڈھونڈ رہی ہو....."اب وہ مانیہ کے پاس کھڑی کسی بات پر مسکرا رہی تھی..."یہ منظر دو آنکھوں نے دیکھا تھا"اور قرب سے آنکھیں بند کی.."جیسے اس کو کھونے کا بہت خوف ہو.."انوشے بار بار کچھ ڈھونڈ رہی تھی..."جب اسکو جرّار آتا دکھائی دیا.."اسکو دیکھ کر انوشے کی آنکھوں کی چمک بڑھی تھی ہونٹوں اور بہت پیاری مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا....."ماشاللہ.."اُسکے لبوں سے بیختیار نکلا....."پاس بیٹھی مانیہ کی آنکھوں سے یہ منظر چھپا نہیں تھا...."کیا بات ہے..؟آج بھائی کو دیکھ کر بڑا مسکرایا جا رہا ہے..."بھئی یہ حادثہ کب ہوا...؟ مانیہ نے اسکو کوہنی مارتے پوچھا"اُسکی بات پر وہ چھیمپ گئی تھی.."شرم سے اسکی پلکیں آٹھ ہی نہیں رہی تھی۔۔۔گالوں پر حیا کے گلال بکھر گئے تھے....."بدتمیز..."شرم نہیں آتی بھئی کل تم اپنی سسرال چلی جاؤ گی.."اور پھر بھی اتنا بول رہی ہو..."کیا سوچتے ہو گے یہ سب "بھئی اس لڑکی میں تو شرم نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں....میں کون سا سسرال کسی دوسرے ملک میں جاؤنگی۔۔سسرال جا کر بھی تو رہنا مجھے اس ہی گھر میں ہے۔۔۔دیکھنا آج بھائی تو اپنا آپ ہی ہار بیٹھے گے..."اور دیکھو تو بھائی بھی بلکل تیری جیسے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں..."مانیہ نے اسکو اشارہ کرتے کہا تھا..."اس نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا تھا..."اور جیسے پلٹنا ہی بھول گئی تھی..." مہندی رنگ کا پٹھانی سلوار قمیض پہنے گلے میں ریڈ مفلر ڈالے بالوں کو ترتیب سے سیٹ کیے پیروں میں پشاوری چپل پہنی ہوئی تھی..."وہ بہت پرکشش لگا تھا..."اور سب کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا...."وہ شفق اور ارم کی کسی بات پر ہنس رہا تھا..."جب وہ ہنستا تو ایک چھوٹا سا گڑھا اُسکے دائے گال پر پڑ جاتا.."جس سے وہ اور بھی زیادہ خوبصورت لگتا..."وہ آنکھوں میں چمک لیے اسکو ہی دیکھ رہی تھی۔۔"انوں تم ذرا وہ پھول لانا.."جو جیری بھائی کے برابر میں رکھے ہے..."جرتاشہ میڈم نے حکم دیا.."اس سے اچھا موقع اسے کوئی نہیں لگا.. مانیہ کے سوال پوچھتی نظروں سے بچ نے کا.."اوکے میں ابھی لائی.."وہ گاؤن سنبھالتی وہاں سے اٹھ کر پھول لینے چلی گئی...."وہ جیسے ہی پھول لینے کے لئے جیری کے پاس سے ہوکر گزری اور برابر سے پھول اٹھانے لگی.."اس نے کن آنکھوں سے جرّار کی طرف دیکھا.."لیکن مقابل نے ایک نظر بھی اسکو نہیں دیکھا تھا.."اور یہ بات ہی اسکو بہت دکھ دے رہی تھی....."وہ مایوس ہوتی پھول کی تھال تاشہ کو تھماتی وہاں سے جانے لگی تھی..."جب اسکو جہان نے روک لیا.." ارے انوشے کہاں جا رہی ہو..؟ بھئی مہندی نہیں لگوانی کیا....؟ دیکھو تو سب ہی مہندی لگا چکے ہے "بس تم ہی رہ رہی ہو...."نہیں جہان میرا دل نہیں کر رہا وہ بجھے دل سے بولتی پھر سے جانے لگی تھی..."ارے ایسے کیسے دل نہیں کر رہا بھئی اتنی خوبصورت لڑکی کا دل نہیں کر رہا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا..."چلو بیٹھو جلدی سے اور مہندی لگواؤں" اور یاد سے نام بھی لکھوا لینا...."وہ اسکو تاکید کر رہا تھا...."پورا لان مہمانوں سے بھرا ہوا تھا..."اسٹیج پر بیٹھی لڑکیاں گلا پھاڑ پھاڑ کر گانا گا رہی تھی...."ارمان بھی اُن سب کے درمیان بیٹھا گانے کی ٹانگ کھینچ رہا تھا...."اور لڑکیاں اُسکے اس عمل پر ہنس رہی تھی..."انکے ہنسنے پر وہ اور زیادہ کرنے لگتا۔۔اسکو دیکھ دیکھ کر نادیہ بیچاری کا برا حال تھا۔۔"اس سے برداشت ہی نہیں ہو رہا تھا ارمان کا وہاں بیٹھنا ان لڑکیوں کے درمیان........."ارمان ذرا یہاں پر آنا کچھ کام ہے...؟ جب اس سے برداشت نہیں ہوا تو وہ دانت پیستی بولی...."ارمان نے ایک نظر اُسکی طرف دیکھا..."اور پھر شروع ہو گیا..."وہ بس جل کڑھ کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ارمان ن ن اب کی بار وہ تھوڑی اور تیز آواز میں بولی......"ارمان نے پھر سے اُسکی طرف دیکھا اور پھر سے اپنا شغل جاری کیا.."جو وہ پچھلے ایک گھنٹے سے کر رہا تھا........." وہ تن فن کرتی اُسکے پاس گئی.."اور اسکا بازوں اپنے نازک ہاتھوں میں دبوچتی اُسکے وہاں سے اٹھنے پر مجبور کر گئی........."وہ اسکو گھورتی تھوڑی خالی جگہ پر لے آئی تھی..."وہاں تھوڑا اندھیرا سا تھا اس لیے کوئی اسکو دیکھ نہیں سکتا تھا......."ارمان کا بازو کو چھوڑتے ہوئے وہ اسکو گھورنے لگی تھی...."وہ جانتا تھا وہ اسکو گھور کیوں رہی ہے.."؟اُسکی یہ حالت ارمان کو بہت لطف دے رہی تھی....."اوہ مس بھوتنی مجھے ایسے کیوں گھور رہی ہو..؟مانا کہ میں ہینڈسم ہوں اور وہاں پر بیٹھی ہر لڑکیاں مجھ پر لٹو ہو رہی تھی.."لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھ بیچارے کو یوں تن تنہا جہاں پر کوئی بھی نہیں ہے گھورنے لگ جاؤ"مجھے تو اب اپنی عزت کی فکر ہونے لگی ہے......"وہ ڈراما کرتا بولا مقصد نادیہ کو اور زیادہ زِچ کرنے کا تھا..."اور وہ ہو بھی گئی تھی.."ہننننننن خوش فہمیاں دیکھو جناب کی .."اور عزت ہے بھی تمہاری "اگر اتنا ہی خیال تھا عزت کا تو تم یوں اتنی ساری لڑکیوں کے درمیان جب بیٹھے تھے تب خیال نہیں آیا عزت کا......"اب بڑا خیال آ رہا ہے وہ اسکو غصے سے گھورتی بولی......."جس پر ارمان نے اسکو ہنس کر دکھایا"اور بولا وہاں کچھ ڈر نہیں تھا "لیکن یہاں پر اپنی عزت جانے کا خطرہ ہے۔۔۔کیا پتہ تم میرے ساتھ.....؟ وہ آنکھوں میں شرارت ہونٹوں پر آئی مسکراہٹ کو بمشکل ہی روکے ہوئے تھا..."اس نے اپنے الفاظ ادھورے چھوڑ کر نادیہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارمان کے بچّے.... آج نہیں بچوگے میرے ہاتھوں سے.....نادیہ اُسکی بات پر چلا ہی تو اٹھی تھی...."دیکھو ابھی میرے بچّے نہیں ہے ..ہاں لیکن بہت جلد ہو جائے گے.."اور تمہیں پتہ ہے میں اپنے بچّوں سے کیا بولوں گا..."اس نے اسکی آنکھوں میں جھانکتےا کہا.."میں کہوں گا.."دیکھو بیٹا ان آنٹی سے دور رہنا بہت گندی آنٹی ہے۔۔۔یہ......وہ اسکو چھیڑتے بولا...... نادیہ تو" آنٹی "لفظ کو سن کر ہی بیہوش ہونے والی تھی...."وہ اسکو آنکھیں پھاڑ کر دیکھ نے لگی..."ویسے نادیہ حریم پھپپوں کی لڑکی شمائلہ کیسے رہے گی....."میرے لیے.."میں سوچ رہا ہوں کیوں نا ماما کو انکے یہاں اپنا رشتہ لے کر بھیج دوں....."اب اور انتظار نہیں ہوتا..."وہ ایک لمبی سانس بھرتا بولا.."آنکھوں میں ابھی بھی شرارت رقص کر رہی تھی..."لیکن نادیہ نہیں دیکھ سکی.."کیونکہ وہ بہت غصے میں ہو گئی تھی....."ارمان کی باتوں سے اور آنکھوں میں آنسووں جھلملا نے لگے تھے..........."کیا ہوا جواب نہیں دیا....؟ ارمان نے اُسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑتے کہا تھا......"مجھے نہیں پتہ"تم کس کے لئے کس کا رشتہ بھیج تے ہو..."بھاڑ میں جاؤ تم اور بھاڑ میں جائے تمہاری وہ محبوبہ وہ بولتی ہوئی پیچھے کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگی اور پھر آنکھوں سے بیدردی سے آنسوں پوچھا.."اور پلٹ گئی۔۔۔۔وہ ابھی جانے ہی لگی تھی جب اسکو اپنا دوپٹہ کسی چیز میں اُلجھتے ہوئے محسوس ہوا........." وہ رک گئی تھی......"اور اپنا چہرا موڑتے ہوئے دیکھا کہ کہاں پر دوپٹہ فنسا ہوا ہے.."لیکن یہ کیا..."؟دوپٹہ کسی چیز میں فنسا نہیں تھا بلکہ ارمان نے اُسکا ایک کونا پیچھے سے تھاما ہوا تھا....."نادیہ پوری پلٹتی ہوئی کچھ بولنے ہی والی تھی.."جب اسکی سماعت سے ارمان کی آواز ٹکرائی................
یوں جاؤ تو نا منہ موڑ کر میری جان" دل دھڑکنا بھول جاتا ہے
محبّت میں تھوڑا نہیں تو زیادہ مذاق تو ہو ہی جاتا ہے
اگر تم ہی منہ موڑ لوگی تو یہ بندہ کیا کرے گا
زندگی روٹھی روٹھی سی لگتی ہے میری جان
جب تم مجھ سے منہ موڑ لیتی ہو
میں نے ہر پل ہر لمحہ سوچا صرف تمہیں ہے
محبّت بھی تم سے کی ہے اور زندگی بتانے کی خواہش بھی ۔۔۔۔۔
وہ اُسکے دوپٹے کا کونا اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر لپیٹے ہوئے اُسکے قریب آ رہا تھا..."آنکھوں سے لو دیتی محبّت کی قندیل ہونٹوں پر ایک بہت پیاری سی مسکراہٹ..."دل میں ڈھیر ساری محبّت سموئے وہ اسکو ہی دیکھ رہا تھا....."نادیہ کے ہاتھوں سے پسینے کی فوار ہی چھوٹ گئی تھی..."آنکھیں حیا سے جھک گئی تھی۔۔۔آنکھوں میں ابھی بھی کچھ آنسوں تھے.."جن کو اس نے ابھی بھی صاف کرنا ضروری نہیں سمجھا..."ارمان نے اُسکے قریب آ کر اپنے ہاتھ سے اُسکے آنسوں صاف کیے اور بولا...."صرف مذاق کر رہا تھا.."اور تم اتنی سی بات پر رونے لگی..."کیا تمہیں میری آنکھوں میں شرارت نظر نہیں آئی تھی.."اب وہ اس سے پوچھ رہا تھا....."تمہیں پتہ ہے.."مجھ سے بلکل بھی تمہارے آنسوں برداشت نہیں ہوتے بہت دل دکھتا ہے۔۔اس لیے مت رویا کرو..."اور ہاں میں تمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا.."سمجھی ... پھر تم مجھے رلاتے کیوں ہو۔۔؟ میں جب بھی روتی ہوں صرف تمہاری وجہ سے.."کبھی آئس کریم چھین کر تو کبھی کسی اور کا نام لے کر۔۔"جبکہ تم جانتے ہو میں روؤں گی۔۔۔پھر بھی.."اس نے سو سوں کرتے ہوئے اس سے پوچھا تھا..."یہ میری محبّت تھی.."میں چاہتا تھا کہ تم بھی میرے بارے میں سوچو.."میرے علاوہ تمہارے خیالوں میں تمہاری زندگی میں کوئی اور دوسرا نا ہو..."اس لیے میں تمہیں پریشان کر کے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہوں..."وہ اُسکی بات پر پہلے تو مسکرایا اور پھر اُسکا ہاتھ تھامتے اس اور اپنی انگلیوں سے رقص کرتا اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوا................."نادیہ نے ایک نظر دیکھ کر پھر سے اپنی پلکیں جھکا لی تھی.."ارمان کے ہونٹوں پر اسکو دیکھ کر بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ آگئی تھی...."میں جاؤں.."اُسکی نظروں سے پریشان ہوتے وہ بولی.."جس پر ارمان نے مسکرا کر گردن ہلا دی تھی۔۔۔۔۔۔۔اب وہ دونوں لان کی طرف جا رہے تھے۔۔۔۔




   0
0 Comments